تفسیر؛عطر قرآن:تفسیر سورۂ بقرہ
بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِندَ اللَّـهِ خَالِصَةً مِّن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿بقرہ، 94﴾
ترجمہ: ان سے کہیے کہ اگر خدا کے نزدیک آخرت کا گھر (جنت) دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لئے مخصوص ہے تو پھر موت کی آرزو کرو۔ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو (تاکہ جلدی بہشت میں داخل ہو جاؤ)۔
📕 تفســــــــیر قــــرآن: 📕
1️⃣ یہود عالم آخرت اور اس کی نعمتوں کو خود سے مخصوص سمجھتے تھے.
2️⃣ یہودیوں کے خیال میں دیگر انسان آخرت سے بے بہرہ ہیں.
3️⃣ یہود نسل پرست اور احساس برتری کی مالک قوم ہے.
4️⃣ یہودیوں کی نظر میں دینِ یہودیت کے علاوہ تمام ادیان بے اعتبار ہیں اور دیگر اقوام اللہ تعالٰی کے ہاں قدر و منزلت نہیں رکھتیں.
5️⃣ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ تعالٰی، قیامت اور آخرت کی نعمتوں پر عقیدہ رکھتے ہیں.
6️⃣ یہودیوں کا دعویٰ اس وقت سچا اور ان کے عقیدہ و یقین کی دلیل ہے کہ وہ موت کی تمنا اور اس کا استقبال کریں.
7️⃣ سرائے آخرت میں حاضر ہونے اور اس کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کے لیے موت ایک مرحلہ اور گزرگاہ ہے.
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
📚 تفسیر راھنما، سورہ بقرہ
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•